اِک شخص سماں بدل گیا ہے
مٹی کا جہاں بدل گیا ہے

بندہ وہ خُدا نہیں تھا لیکن
ہر جسم میں جاں بدل گیا ہے

وہ آخری آدمی خُدا کا
سب لفظ و بیاں بدل گیا ہے

پاؤں میں تھی آدمی کے کب سے
زنجیرِ گراں بدل گیا ہے

ہر نام و نسب کے دور میں وہ
سب نام و نشاں بدل گیا ہے

کہتے ہیں شہید کربلا کے
مفہومِ زیاں بدل گیا ہے

ہر زندہ چراغ ہے اُسی کا
وہ نُور کہاں بدل گیا ہے

پروانے کہاں یہ سُننے والے
اب دور میاں بدل گیا ہے

آواز یہ اُس مکاں سے آئی
وہ شخص مکاں بدل گیا ہے

نیچے سے زمیں نِکل گئی ہے
اُوپر سے زماں بدل گیا ہے

کِس خلوتِ خاص میں گیا وہ
کپڑے بھی یہاں بدل گیا ہے